جنگ کے حامی نہیں/ یوکراین بحران امریکی بحران ساز سیاست کا شاخسانہ ہے

IQNA

رہبر معظم:

جنگ کے حامی نہیں/ یوکراین بحران امریکی بحران ساز سیاست کا شاخسانہ ہے

15:56 - March 01, 2022
خبر کا کوڈ: 3511403
ہم جنگ روکنے کے خواہشمند ہیں تاہم بحران کے خاتمے سے پہلے علاج کے لیے وجہ ڈھونڈنا ضروری ہے اور امریکی و مغربی پالیسیوں کو دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔

رہبری ویب سائٹ کے مطابق  انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے  27 رجب المرجب کو عید بعثت کی مناسبت سے ٹی وی چینل کے ذریعہ ایرانی قوم اور ملت اسلامیہ سے براہ راست خطاب میں اس عید کو بڑا ہدیہ اور الہی انعام قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلاشہ انسانیت کے کیے یہ عظیم ترین تحفہ اور نعمت شمار ہوتا ہے۔
رہبر معظم نے قرآن میں تدبر اور تفکر اور مقصد بعثت نبی گرامی کے حوالے سے کہا کہ اخلاقیات کی ترویج اور پرہیزگاری کو بعثت کے فلسفے کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور یہ کہ رسول گرامی اسلام آیت الہی کے زریعے سے تزکیہ کو بیان کرتا ہے۔
رہبر معظم کا کہنا تھا کہ اسلام نے ان دو پرزور دیا ہے اور سب کو اس کی طرف دعوت دی ہے کہ عقلانیت کے ساتھ اخلاق و تزکیہ پر توجہ دی جائے۔
بعثت کے سلسلے میں کہنا چاہونگا کہ دور جاہلیت میں جزیرہ العرب میں ایک ایسی بافضیلت معاشرے کی تشکیل دی گیی جو ایک ناممکن امر دکھائی دیتا تھا اور اس جایل معاشرے کو جو بدترین نادانی اور گمراہی میں ڈوبا ہوا تھا اس حق سے گریزان اخلاق سے عاری ملت کو رسول اکرم نے ایسی امت بنائی جو امت واحدہ اور عالی ترین اخلاق سے مزین قوم بن گئی۔ بلاشہ عقل انسانی سے ماورا امر وقوع پذیر ہوا اور بیس سال سے کم عرصے میں وہ قوم دنیا پر چھا گیی اور عظیم شان و شوکت کے ساتھ کامیابیاں حاصل کی اور یہی چیز بعثت کے طفیل ملا اور یہ سبق ملتا ہے کہ اگر امت خدا کے احکامات پر عمل کے ساتھ ہمت سے کام لیں تو نا اممکن امر ممکن ہوسکتا ہے۔
رہبر معظم کا کہنا تھا کہ بعثت کا تجربہ قابل تکرار ہے اور ایسا ہی تجربہ اانقلاب اسلامی میں دہرایا گیا کہ ایران نے ایک ظالمانہ رژیم اور مادی طاقتوں سے مکمل لیس طاقت کو ہرا دیا اور انقلاب سے قبل حکومت جو بڑی طاقتوں کی حمایت سے لیس تھی امام خمینی کی مخلصانہ قیادت اورایرانی قوم کی عزم راسخ سے شکست کھا جاتی ہے۔
انقلاب اسلامی نے ایرانی قوم کو نئی جہت اور حرکت دی اور دنیا پر واضح ہوا کہ اگر ارادہ خداوندی کے ساتھ ہم حرکت کریں تو ۔ہر امر ممکن ہوسکتا ہے ۔
رہبر معظم نے مذہب اور سیاست میں جدائی کو نادرست فرضیہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بعثت کے بعد
رسول اکرم نے پہلی قدم میں حکومت بنائی اور بزرگوں نے زمینہ فراہم کی اور ہجرت کے مقدمات فراہم کئے اور رسول اکرم نے مدینہ میں امت کی داغ دالی اور معلوم ہوا کہ آپ نے حکومت کا قیام عمل میں لایا اور آپ نے ہر طرح سے مقابلہ کیا ۔۔ یہ جو بعض لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر کی جنگیں دفاعی نوعیت کے تھیں درست نہیں ایسا نہیں تھا۔ اپ نے جاہلیت سے ہر میدان میں خوب مقابلہ کیا۔
انکا کہنا تھا کہ قرآن کریم میں جاہلیت سے مقابلے پر بہت تاکید کی گیی ہے جاہلیت کا وسیع مفہوم ہے اگر لاعلمی میں اخلاقی پستی کی طرف جایا جائے تو یہ بھی جاہلیت کی قسم ہے۔ حیا کا خاتمہ ظلم و بربریت سب جاہلیت ہیں اور بعثت میں ان سب سے مقابلہ شامل ہے۔
حق کو پامال کرنا ، کمزور پر ظلم اور بے حیائی سب جاہلیت کے زمرے میں شامل ہیں اور رسول اکرم نے ان سے مقابلہ کیا۔ آج بھی اسی طرح کی بہت سے برائیاں شدت کے ساتھ بڑے پیمانے پر موجود ہیں اور مغربی ماحول میں یہ واضح ہے۔
ان معاشروں میں در حقیقت طمع و لالچ جو مغربی بنیاد کا اہم حصہ ہے تمام معیارات اور سیاست کی بنیاد تعصب پر مبنی ہے اور علم و ٹیکناوجی کو قتل وغارت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اگر ویکسین کو جان بچانے کیے نجات کے طور پر استعمال ہوتا ہے وہی پر اسی علم سے ظلم کے لیے اسلحے بنائے جاتے ہیں،ہم جنس پرستی اور اس جیسی شرم آور اقدار مغربی تمدن میں موجود ہے جنکا نام لینا بھی نامناسب ہے۔
رسول اکرم سے پہلے موجود تمام برائیاں آج موجود ہیں اور انکو ایک منطقی اور ماڈرن نام سے پیش کیا جاتا ہے لہذا رسول اکرم کی بعثت سے درس لیتے ہوئے ہمیں وہی اقدام کرنا ہوگا جنمیں ایمان کو مضبوط بنانا اور مذہبی اقدار کو مستحکم بنانا اور اسلامی نظام کی بنیادوں کو مضبوط اور وسییع کرنا شامل ہے۔
ان کاموں کے لیے مضبوط اور منظم پروگرام تشکیل دینا ہوگا نہ کہ من پسند انداز میں کام کرنا اور ضروی ہے کہ ماڈرن جاہلیت کی خصوصیات کو پہچانا جائے، ہمیں اسلامی اغراض و مقاصد کے حصول کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے اور ہم بیچ راستے میں ہیں۔
رہبر معظم نے اسلامی انقلاب کو ایک بہترین نمونہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر تہران سے کوسوں دور ایک ملک مین اگر شہید سلیمانی کی توہین کوئی پولیس کرتا ہے تو لوگ فورا میدان میں آتےہیں اور اس طرج سے احتجاج کیا جاتا ہے کہ وہی پولیس خود آکر شہید کی تصویر لگاتے ہین یہ خوبصورت پہلو ہے اسلامی انقلاب کی کشش کا۔
رہبر معظم نے کہا کہ ماڈرن جاہلیت کی بدترین مثال امریکہ میں دیکھا جاسکتا ہے جہاں بد اخلاقی کی عملا ترویج کی جاتی ہے اور وہاں پر طبقاتی فاصلہ روزبروز بڑھتا جارہا ہے جہاں گرمی میں گرمی سے اور سردی مین سردی سے کافی لوگ مرجاتے ہیں۔
رہبر معظم نے کہا کہ امریکہ جو ہیمشہ بحرانوں سے رزق حاصل کرتے ہیں اور دنیا میں جہاں کوئی بحران پیدا ہوتا ہے تو امریکہ جو ایک ملک کی جگہ ایک مافیا ہے وہی فورا پہنچ جاتا ہے کیونکہ اسلحہ سازی مافیا کے مفادات کے لیے کام کرنا ہے۔
رہبر معظم نے کہا کہ مغربی ایشیا میں داعش جیسی تنظیم کو اعلانیہ انہوں نے بنایا جنکے دہشت گرد سرعام سر کاٹتے اور ویڈیو بنا کر تشہیر کرتے یہ امریکہ ساختہ تنظیم ہے اور یہ امریکہ جو اس طرح دنیا مین بحران خلق کرتا رہتا ہے۔
رہبر معظم نے یوکراین کے حوالے سے کہا کہ یہ معاملہ امریکی پالسیوں کا نتیجہ ہے جو پیدا ہوا ہے جو حکومتوں کے خلاف لوگوں کو ورغلاتا ہے، ریشمی اور رنگ برنگی اقدامات سے بغاوت پیدا کرنا ، ملکوں میں قتل و غارت اور انفراسٹریکچرکو تباہ کرنا کسی طرح درست نہیں جیسے
افغانستان و عراق یا یمن میں شادی کی تقریبات کو بموں سے نشانہ بنا کر اس کو دہشت گردی سے جنگ کا نام دیا جاتا ہے۔ صھیونی مظالم کی کھلی حمایت کو انسانی حقوق کا نام دیا جاتا ہے ہم ایسے نہیں سوچتے بلکہ ہر جگہ قتل و غارت اور تناہی کی مذمت کرتے ہیں۔
یوکراین میں کچھ معاملے سے درس لینے کی ضرورت ہے اور صاحبان قلم کو اس سے استفادہ کرنا چاہیے، ایک بات واضح ہے کہ جو پٹھو ممالک امریکی سہارے پر چل رہے ہیں انکے لئے واضح سبق ہے جہاں یوکراین کے صدر فریاد کررہے ہیں کہ ہمیں اکیلا چھوڈ دیا گیا ہے۔
دوسری عبرت یہ ہے کہ عوام بہترین حامی ہے اگر یوکراین میں حکومت کو عوام کی حمایت حاصل ہوتی یو یہ صورتحال نہ ہوتی۔ عراق میں صدام دور میں جب امریکہ نے حملہ کیا تو عوام نے ساتھ نہ دیا لیکن جب داعش نے حملہ کیا تو لوگ میدان میں آئے اور یوں صدام یا داعش کو تمام حکومتوں کی جانب سے حمایت کے باوجود شکست کا سامنا ہوا مگر ایران میں انقلاب اسلامی کی کامیابی میں عوام کا اہم ترین رول سب کے سامنے ہے۔/

4039625

 

نظرات بینندگان
captcha