ماحولیاتی ایشو، یوکرائن وار غزہ بحران میں اقوام متحدہ کا کردار صفر رہا

IQNA

سال 2023 الوداع ؛

ماحولیاتی ایشو، یوکرائن وار غزہ بحران میں اقوام متحدہ کا کردار صفر رہا

8:35 - December 30, 2023
خبر کا کوڈ: 3515592
ایکنا: رواں سال مشرق وسطی کے لیے ایک خوشگوار خبر سعودی عرب اور ایران کی تعلقات کی بحالی تھی جسے دنیا بھر میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا گیا۔

ایکنا انٹرنیشنل ڈیسک کے مطابق اقوام متحدہ نے 2023ء کو تاریخ کا گرم ترین سال قرار دیا، یہ بات موسمیاتی تبدیلیوں کے پس منظر میں تھی۔ جہاں تک دنیا کے سیاسی درجہ حرارت کا تعلق ہے تو یہ بھی ناقابلِ برداشت حد تک بلند رہا۔ ابھی روس یوکرین تنازع کا نتیجہ خیز حل تلاش کرنے میں ناکامی ہمارا منہ چڑا رہی تھی کہ اسرائیل حماس جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے۔ اس سے نہ صرف مغرب کی انسان دوستی کا پردہ چاک ہوا بلکہ پرامن دنیا کا خواب بھی دھندلا گیا۔ چین اور امریکا کے سربراہان کی ملاقات سے وابستہ توقعات کا محل بھی ریت کا ڈھیر ثابت ہوا۔

رواں سال مشرق وسطی کے لیے ایک خوشگوار خبر سعودی عرب اور ایران کی تعلقات کی بحالی تھی جسے دنیا بھر میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا گیا۔ سال 2023ء کے اہم واقعات کا جائزہ لیتے ہوئے اگر مثبت بات سے آغاز کیا جائے تو کیسا رہے گا؟

 

ایران اور سعودی عرب نے چین کی ثالثی کے بعد 10 مارچ کو ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ اس سے پہلے دونوں ممالک کے درمیان سات برس سے سفارتی تعلقات معطل چلے آرہے تھے۔ معاہدے میں سفارتی تعلقات کی بحالی اور تجارتی و اقتصادی روابط فعال کرنے پر اتفاق ہوا۔

اس معاہدے پر ایران کی جانب سے سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سیکریٹری علی شامخانی جب کہ سعودی عرب کے مشیر برائے قومی سلامتی مساعد بن محمد العیبان نے دستخط کیے۔

دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کا رشتہ یمن کے حوثیوں اور ایران کی سفارتی تنہائی سے جڑا ہے۔ سعودی عرب کا اصرار ہے کہ ایران یمن میں حوثی کو سعودی عرب کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ دوسری جانب ایران اپنی سفارتی تنہائی کے پیچھے سعودی عرب کی مغربی ممالک اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ کی گئی کاوشوں کو ذمے دار قرار دیتا ہے۔

اس کے علاوہ شام سمیت مشرقِ وسطی کے دیگر ممالک میں بھی دونوں ممکنہ طور پر ایک دوسرے کے خلاف پراکسی جنگ کا حصہ رہے ہیں۔ 2016ء میں ایران اور سعودیہ کے سفارتی تعلقات کی ہچکولے لیتی ناؤ اس وقت ڈوب گئی تھی جب سعودی عرب میں ایک شیعہ عالمِ دین کو سزائے موت دینے پر تہران میں سعودی سفارت خانے پر حملہ ہوا۔

معاہدے میں دونوں ممالک نے اتفاق کیا کہ وہ ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔ ماہرین کے مطابق پوری دنیا بالخصوص مشرقی وسطی کے لیے خوشگوار ہوا کا جھونکا ہے۔

روس یوکرین تنازع کا حل تلاش نہ کیا جاسکا

رواں برس 24 فروری کو روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کو ایک سال پورا ہوا۔ اس دوران درجنوں شہر ملبے کا ڈھیر بن گئے، ہزاروں زندگیاں موت کی نذر ہو گئیں اور لاکھوں افراد بھوک اور بے گھری کے عذاب کا شکار بن گئے۔

اقوام متحدہ نے خبردار کیا کہ اس جنگ کے شعلے پوری دنیا میں پھیل سکتے ہیں لیکن نتیجہ خیز حل تلاش کرنے میں ناکام رہا۔ چینی صدر شی جن پنگ کے دورہ روس کے دوران اہم پیش رفت کی توقعات باندھی گئیں۔ چین نے 12 نکاتی ایجنڈے پر روس سے تبادلہ خیال کیا لیکن امریکا سمیت بہت سے مغربی ممالک نے اسے ’جانبدارانہ کوشش‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔

امریکا کا مطالبہ ہے کہ روس پہلے اپنے عسکری دستے یوکرین سے نکالے اس کے بعد ہی سنجیدہ مذاکرات کی راہ ہموار ہو گی۔ روس یہ بات ماننے کو بالکل تیار نہیں۔ جنگ کو 665 دن ہو چکے اور توقعات کے برعکس رواں برس کوئی راستہ نہیں نکل سکا۔ یوکرین کے صدر زیلنسکی نے چند روز قبل میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’مجھے یقین ہے کہ امریکا اور مغربی ممالک ہمارے ساتھ تعاون کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ میں پراعتماد ہوں کہ امریکا ہمیں دھوکہ نہیں دے گا‘۔

روس یوکرین جنگ میں آئندہ برس امریکا میں انتخابات کے بعد کسی بڑے بریک تھرو کی توقعات ہیں۔

غزہ ’بچوں کا قبرستان‘ بن گیا

رواں سال کا سب سے تکلیف دہ واقعہ اسرائیل اور حماس کی جنگ ہے جس میں گزشتہ 75 روز کے دوران تقریباً 20 ہزار انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ ہسپتال اور عبادت گاہیں تک بمباری سے محفوظ نہ رہ سکے۔ زخمیوں کی تعداد 50 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ جنگ جارحیت اور درندگی کا بدترین نمونہ ہے۔

تصور کیجیے کہ مائیں اپنے بچوں کی ٹانگوں پر نام لکھ رہی ہیں تاکہ لاشیں پہچاننے میں آسانی ہو۔ اس سے زیادہ تکلیف دہ کیا ہو سکتا ہے؟ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس غزہ کو ’بچوں کا قبرستان‘ قرار دے چکے ہیں۔

جنگ کا آغاز 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے سے ہوا جسے ’معرکۃ طوفان الاقصی‘ کا نام دیا گیا۔ جواب میں اسرائیل نے فلسطینی علاقوں میں کارروائیوں کا آغاز کر رکھا ہے جس کے دوران رہائشی علاقوں سمیت حماس کے ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے جبکہ غزہ کے رہائشیوں کو انخلا کی وارننگ بھی دی جا چکی ہے جس کے بعد لاکھوں شہریوں نے نقل مکانی کی۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق انخلا کے حکم سے قبل ہونے والی اسرائیلی کارروائیوں کی وجہ سے لاکھوں فلسطینی اندرونی طور پر بے گھر ہو چکے تھے۔

جنگ کے دوران امریکا اور مغربی ممالک کی حکومتوں کا رویہ افسوس ناک رہا جنہوں نے غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنے اور جنگ بندی میں موثر کردار ادا کرنے کے بجائے اسے مزید ہوا دی۔ پینٹاگون کے سربراہ لائیڈ آسٹن نے کچھ روز قبل کہا کہ ’ہم اسرائیل کو وہ ساز و سامان فراہم کرتے رہیں گے جو اسے اپنے دفاع کے لیے درکار ہے، جس میں اہم گولہ بارود، ٹیکٹیکل گاڑیاں اور فضائی دفاعی نظام شامل ہے۔‘

تاہم امریکا اور یورپ کے عام شہری اسرائیلی مظالم کے خلاف لاکھوں کی تعداد میں باہر نکلے۔ وائس آف امریکا کے مطابق واشنگٹن ڈی سی کے مظاہرے میں شریک افراد سیاہ اور سفید فلسطینی سکارف پہنے ’فلسطین آزاد ہوگا‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ مظاہرین کے ایک گروپ نے ایک بہت بڑا فلسطینی پرچم اٹھا کر پینسلوانیا ایونیو پر مارچ کیا۔ پینسلوانیا ایونیو واشنگٹن ڈی سی کی وہ سڑک ہے، جو وائٹ ہاوس تک جاتی ہے۔ بعض مقامات پر مظاہرین کے ہاتھوں میں پیلے، سرخ اور سیاہ پلے کارڈز تھے جن پر ’غزہ کو جینے دو‘ (Let Gaza Live) اور ’غزہ پر بمباری بند کرو‘ (Stop Bombarding Gaza) کے مطالبے درج تھے۔

80 روز سے زائد گزرنے کے باوجود جنگ بندی نہیں ہوسکی۔ کیا یہ اقوام متحدہ کی ناکامی نہیں؟ آئیے اقوام متحدہ کی رواں برس کی کارکردگی کا الگ سے جائزہ لیتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی کارکردگی پر ایک نظر

جنگ کی روک تھام، بین الاقوامی امن و سلامتی برقرار رکھنے، مختلف اقوام کے درمیان دوستانہ تعلقات استوار کرنے اور بین الاقوامی مسائل کے حل میں تعاون جیسے مقاصد کے ساتھ وجود میں آنے والا ادارہ اقوام متحدہ رواں سال مؤثر کردار ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 193 دیگر اراکین سلامتی کونسل کے مستقل پانچ رکن ممالک کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ ان پانچ میں سے کسی کا بھی انکار باقی سب کو صفر کر دیتا ہے۔

اقوام متحدہ کو رواں برس یوکرین روس تنازع اور پھر اسرائیل حماس تنازع، یہ دو بڑے چیلنجز درپیش تھے، یہ دونوں محاذوں پر ناکام رہا۔

نظرات بینندگان
captcha