غدیر؛ رسالت حضرت محمد(ص) جیسا اہم پیغام

IQNA

قرآن کیا کہتا ہے / ۱۹

غدیر؛ رسالت حضرت محمد(ص) جیسا اہم پیغام

8:39 - July 16, 2022
خبر کا کوڈ: 3512299
اپنی زندگی کے آخری حج سے واپسی پر آیت نازل ہوتی ہے جس میں دین کے مکمل ہونے کو ایک خاص پیغام سے جوڑا جاتا ہے کہ غدیر خم میں اس کو بیان کیا جائے۔

ایکنا نیوز- حضرت محمد(ص) ساٹھ سال عمر شریف گزار چکے اور اور آخری حج انجام  سال 632 میں انجام دیں رہے ہیں. اس سفر میں ایک لاکھ بیس ہزار کے لگ بھگ مسلمان رسول گرامی کے ہمراہ حج کی سعادت حاصل کررہے ہیں، مدینہ کی طرف واپسی کا سفر شروع ہے۔

 

 رسول گرامی حج سے واپسی جس کو حجةالوداع (حج خداحافظی) کا عنوان دیا جاتا ہے،مدینہ کی طرف محو سفر ہے اور ذیحجہ کی اٹھارہ تاریخ جمعرات کا دن ہے  کہ قافلہ غدیرخم کے علاقے میں پہنچتا ہے اچانک اس مقام پر رسول گرامی پر ایک آیت نازل ہوتی ہے کہ کچھ یوں ہے:

«يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ؛ اے پیغمبر! جو تمھارے رب کی طرف سے نازہ ہوا ہے اس کو بیان کر؛ اگر انجام نہ دیا تم نے خدا کا پیغام ہی نہیں پہنچایا۔ خدا تمھیں [آسیب و نقصان] عوام سے محفوظ رکھے گا؛ یقینا خدا کافروں کو ہدایت نہیں کرتا.»(مائده، 67)

اس آیت کی طرف توجہ کی جائے تو بہت اہمیت کی حامل ہے کہ رسول گرامی کی رسالت کی  مدت 23 سال کو اشارہ کرکے کہتی ہے کہ اگر یہ کام نہ ہوا تو پوری رسالت ناقص رہے گی۔

رسالت پیغمبر کے برابر اہم کام

رسول گرامی فرمان جاری کرتا ہے کہ ایک لاکھ بیس ہزار کے قافلے میں شامل حجاج کو روکا جایے اور تمام حجاج کو یکجا کرکے روکنے کا حکم دیا جائے کہا جاتا ہے کہ اس کام میں آدھا دن لگا تاکہ آگے جان والے پیچھے آجائے اور سب ایک مقام پر یکجا ہوں۔

 

بڑی تعداد میں حجاج کی وجہ سے اس واقعے کو سب نے مستند طریقے سے محفوظ کرلیا اور تمام مفسّروں، محدثوں اور مورخوں نے اس آیت کو«غدیر» سے مربوط قرار دیا ہے. علّامه امینی اس واقعے کو تیس احادیث کے منابع جنمیں اہل سنت کی معروف کتاب الولایة - ابن جریر طبری، تفسیر الثعلبی، کتاب ما نزل من القرآن فی علی از ابو نعیم اصفهانی، أسباب النزول واحدی و... سے نقل کیا ہے اس واقعے کا اہم پیغام کیا تھا؟

پیام غدیر اور جانشینی علی‌بن ابیطالب(ع)

سب یکجا ہوئے تو نماز ظهر ادا کی گئی اور پھر آپ نے خطبہ شروع کیا: «خدائے لطیف و خبیر نے خبر دی ہے کہ میں جلد آپ سب سے جدا ہوجاونگا... لہذا دیکھو کیسے مجھ سے ثقلین(دو اہم اور قابل توجہ مسئله)  بارے کیا کروگے؛ ثقل اکبر کتاب خدا (قرآن) ہے...  اور ثقل دوم میری عترت  (اهل بیت) ہے».

پھر سب کے سامنے  على بن ابى طالب کے ہاتھ کو اٹھا کر فرمایا «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا عَلِيٌّ مَوْلَاهُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ وَ انْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ وَ اخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ؛ جس کا میں مولا ہوں یہ علی اس کا مولا ہے، علی‌بن ابیطالب سب کے مولا ہے، خدا انکو دوست کو دوست اور دشمن کو دشمن رکھ».

لوگ ابھی موجود تھے کہ دوبارہ جبرئیل نازل ہوئے اورسوره مائده کی تیسری آیت نازل ہوئی: «الْیوْمَ أَکمَلْتُ لَکمْ دینَکمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَیکمْ نِعْمَتی وَ رَضیتُ لَکمُ الْإِسْلامَ دیناً؛ آج دین مکمل ہوا اور میری نعمت تم پر تمام ہوئی اور میں نے اسلام کو پسندیدہ دین قرار دیا».

* عبدالحسین امینی نجفی (1902-1970) جو علامه امینی، معروف مرجع تقلید اور صاحب کتاب دائرةالمعارف 11 جلدی الغدیر  ہے جو عربی زبان میں ہے.  انہوں نے اس کتاب کے لکھنے کے لیے درجنوں شہروں اور هندوستان، مصر کا شام کا سفر کیا، 10 هزار کتاب کو مکمل مطالعہ کیا اور 100 هزار کتب سے استفادہ کیا۔/

متعلق خبر
نظرات بینندگان
captcha