قرآن ڈائیلاگ اور تعلقات کا حامی

IQNA

قرآن کیا کہتا ہے / 20

قرآن ڈائیلاگ اور تعلقات کا حامی

9:00 - July 21, 2022
خبر کا کوڈ: 3512341
اسلامی محقق نے مقدس کتب کو ایک احکام بتانے والے کتب کے طور پر دیکھنے کے نظریے کو رد کرتے ہوئے قرآن کو گفتگو اور تعلقات کی حامی کتاب قرار دیا۔

ایکنا نیوز- ایران کی خوارزمی یونیورسٹی کے استاد رسول رسولی‌پور نے«گفت‌وگو، راہ بقا» نشست سے خطاب میں اسلامی آئیڈیالوجی اور دستورات پر روشنی ڈالی؛

انکا کہنا تھا کہ میرا موضوع قرآن کی دعوت ہے جسمیں وہ بقائے باہمی اور ڈائیلاگ پر بات کرتا ہے

اور اس عنوان کو میں نے کلمه «سواء» جو آیت ۶۴ سوره آل عمران میں ہے اس سے لیا ہے: «قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ؛ کہو اے اہل کتاب آئیے اور اس بات پر جو میرے اور آپ کے درمیان مشترک ہے یہ کہ خدا کے علاوہ کسی کی پرستش نہیں کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہیں ٹھرائیں گے اور کوئی خدا کے علاوہ کسی کو خدا تسلیم نہیں کریں گے».

بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ مقدس متون یا ٹیکسٹ ایک دستوری حکم ہے جو گفتگو کے لیے مناسب نہیں جس سے شاید فایدہ نہ اٹھایا جاسکے، تاہم میں اس دعوی کو رد کرتا ہوں اور یہ درست نظریہ نہیں کہ مقدس متون میں گفتگو کی شرایط موجود نہیں۔

بظاہر کلمہ «یسألونک»(آپ سے پوچھتے ہیں) قرآن میں عوام کے سوالات اور آپ (ص) کے جوابات سے پر ہے جن سے گفتگو اور ڈائیلاگ کی فضا کا اندازہ ہوتا ہے۔

فطری بات ہے کہ قرآن کو دستوری یا احکامات کی کتاب سمجھا جائے اور یہ کہ اس کتاب کے سامنے دیگر کتب یا مذاہب کو تسلیم ہونا چاہیے یا ختم ہونا چاہیے تاہم خدا فرماتا ہے:

 «لَيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلَا يَجِدْ لَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا؛ [بدلہ یا سزا] تمھارے یا اہل کتاب کی خواہش کے مطابق نہیں جو برا کرے گا سزا ملے گا اور وہ خدا کے علاوہ مدد گار نہ پائے گا»(نساء،123).

لہذا قرآن کے رو سے، مذهب اور مزاج و رویہ معیار نہیں بلکہ تمھارا عمل معیار ہے.

اس بات کی تصدیق کے لیے کہ قرآن ڈائیلاگ کی حمایت کرتا ہے آیات ۲۴ اور ۲۵ سوره سبأ میں کہا گیا ہے: «وَإِنَّا أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلَى هُدًى أَوْ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ؛ حقیقت میں یا ہم ہو تم لوگ واضح گمراہی میں ہیں»(سبأ، 24). این یعنی آیت کنفرم نہیں کہتی کہ ہم یا تم گمراہی پر ہے. «قُلْ لَا تُسْأَلُونَ عَمَّا أَجْرَمْنَا وَلَا نُسْأَلُ عَمَّا تَعْمَلُونَ؛ کہو [تم لوگ] سے ہمارے اعمال کا سوال نہیں ہوگا اور [ہم بھی] تم لوگوں کے اعمال کے جوابدہ نہیں»(سبأ، ۲۵) دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ اپنے بارے میں کہتا ہے جرم ہم نے جو کیا اور دوسرے کے بارے میں کہتا ہے کہ تمھارے اعمال کے بارے میں جو تم انجام دیتے ہوں۔

متعلق خبر
نظرات بینندگان
captcha